پاکستانی اور بھارتی فلمسازوں نے مشترکہ امریکی فنڈنگ سے 8 ڈاکومنٹری فلمیں بنا لیں ،جون میں ریلیز کیلئے تیار

Written by on May 12, 2022

 پاکستان اور بھارت کے فلم سازوں نے امریکی این جی او ‘سیڈز آف پیس’ کے اشتراک سے 8 ڈاکومنٹری فلمیں تیار کی ہیں جو اگلے ماہ جون میں ریلیز کی جائیں گی. اس منصوبے کے لیے فنڈنگ امریکی قونصلیٹ کراچی کے ثقافتی امور نے فراہم کی ہے.

پاکستان اور بھارت کے لوگوں کے درمیان ثقافتی اور تاریخی غلط فہمیوں کو ڈاکومنٹرییز کے ذریعے دور کرنے کا آئیڈیا اور یہ پورا پراجیکٹ کراچی قونصلیٹ کے ثقافتی امور کے افسر جان ریٹیگن کا تھا جو اکتوبر 2020 میں کراچی قونصلیٹ میں تعینات ہوئےتھے. 

بھارت اور پاکستان کے فلم سازوں کے لیے سیڈز آف پیس این جی او نے 21 بھارتی اور 21 پاکستانی نوجوان فلم ساز ٹیموں کے ساتھ مل کر 8 مختصر دورانیے کی فلمیں تیار کی ہیں. امریکی فنڈنگ سے تیار کی جانے والی ان فلمز کا مقصد بھارت اور پاکستان کے لوگوں خصوصاً نوجوان نسل کے درمیان ثقافتی اور تاریخی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے. گزشتہ 2 سال کوڈ-19 کے دوران یہ ڈاکومنٹریز تیار کی گئیں جن کی آدھی شوٹنگ پاکستان اور آدھی بھارت میں کی گئی جبکہ دونوں ممالک سے فلم سازی سے متعلق تکنیکی و دیگر سٹاف کی تعداد بھی برابر رکھی گئی ہے. 

گزشتہ روز امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ادارے نیویارک فارن پریس سنٹر نے اس پراجیکٹ کے متعلق  بریفنگ کا اہتمام کیا. جس کی ماڈریٹ نیویارک فارن پریس سنٹر میں انفارمیشن آفیسر مہوش صدیقی تھیں. جبکہ نیویارک فارن پریس سنٹر کے ڈائریکٹر رائن میتھنی نے کوڈ-19 کی وجہ سے2سال سے زائد عرصہ نیویارک فارن پریس سنٹر بند رہنے کے بعد پہلی ‘ان پرسن’ بریفنگ کے لیے آنے والے صحافیوں روزنامہ” پاکستان “کے بیورو چیف طاہر محمود چوہدری، وی او اے دیوا کے فضل اللہ اور بی بی سی ہندی/ اردو کے سلیم صدیقی و دیگر شرکاء کو خوش آمدید کہا.

پاکستان اور بھارت کے لیے تیار کی جانے والی مشترکہ ڈاکومنٹریز  کے3 ماہرین شریک ہوئے جن میں پاکستان سے حیا فاطمہ اقبال، بھارت سےسنکلپ میشرم اور امریکہ کے  مارکوس گولڈ باس شامل تھے. جبکہ امریکی قونصلیٹ کراچی کے شعبہ کلچرل امور کے جان ریٹیگن اور ‘سیڈز  آف پیس کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر رینی اٹکنسن نے بھی بریفنگ میں حصہ لیا. 

امریکی فلم ایکسپرٹ مارکوس گولڈ باس کا کہنا تھا کہ “اس پراجیکٹ کے لیے ان کے پاس500 درخواستیں آئی تھیں جن میں سے ہم نے کل 42 ٹیموں کو منتخب کرنا تھا. اکیس اکیس پاکستان اور بھارت سے. یہ ایک مشکل کام تھا کیونکہ سبھی اپنے کام کی مہارت میں خوب تھے اگلے ماہ جون میں یہ 8فلمز  یوٹیوب پر دیکھی جا سکیں گی.” 

  “روز نامہ پاکستان” کے اس سوال کہ کیا ان8 فلموں کی کہانیوں میں کہیں کشمیر کے مسئلے کا ذکر ہے؟ کے جواب میں بھارت کے فلم ایکسپرٹ سنکلپ میشرم کا کہنا تھا کہ “لوگوں میں یہ غلط فہمی ہے کہ بھارت کے لوگ کشمیر کے بارے میں پرجوش ہیں یا پاکستان کے لوگ اس کے دیوانے ہیں، لیکن حقیقت میں ہم  نوجوانوں سے ملے، کشمیر کے متعلق ان میں ہمیں وہ شدت نظر نہیں آئی. یہ پراجیکٹ حکومتوں کے لیے یہ جاننے کا ایک اچھا طریقہ ہے. نوجوانوں کو تاریخ کا اتنا جنون نہیں ہے۔دراصل آج لوگ بات چیت کے نئے طریقوں سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں. ہمیں دونوں طرف سے ایک بھی کہانی نہیں مل سکی جو کشمیر سے متعلق ہو. لہذا ہمیں اس کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی. 

جبکہ اسی سوال کے جواب میں پاکستان سے شریک حیا فاطمہ اقبال نے کہا کہ” ان کے خیال میں اصل سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم کشمیر پر بات کریں گے یا نہیں.  مجھے اس پر بات کرنے میں کوئی حرج نظر نہیں آتا. یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے. کسی مسئلے کے بارے میں بات کرنے کے بہت سے طریقے ہیں.  بھارت اور پاکستان کے درمیان اس ایک خاص مسئلے یا متعدد مسائل کی کوریج  ہمیشہ بہت غصے سے کی جاتی رہی ہے.لیکن اس کے بارے میں بات کرنے کے  اور بھی طریقے ہیں. “

حیا فاطمہ کا مزید کہنا تھا کہ “جب کشمیر کی بات آتی ہے تو میرے خیال میں کشمیر کے لوگ اس کے بارے میں بات کرنے کے لیے بہترین ہیں. میں نہیں سمجھتی کہ مرکزی دھارے میں شامل پاکستانیوں یا بھارتیوں کو اس معاملے پر کچھ کہنا چاہیے. آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ غصہ ہی کہانی سنانے کا واحد ذریعہ نہیں ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ لوگ اہم ایشوز مٹانے میں مصروف ہیں، بس یہ ہے کہ وہ اب سنجیدہ مسائل پر بات کرنے کے لیے  تخلیقی اور پرلطف طریقے تلاش کر رہے ہیں، جو آپ کو ان تمام فلموں میں نظر آئیں گے جب وہ جون میں ریلیز ہوں گی.”


Reader's opinions

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *



Current track

Title

Artist