سپریم کورٹ نے سندھ ہاﺅس پر حملے میں ملوث افراد کو گرفتار کر نے کاحکم دیدیا

Written by on March 28, 2022

سپریم کورٹ نے سندھ ہاﺅس پر حملے میں ملوث افراد کو گرفتار کر نے کا حکم جاری کر دیاہے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جمہوریت ایک ندی ہے جسے بےوفائیاں آلودہ کرتی ہیں،، بےوفائی اورمنحرف ہونےکامثبت مطلب کسی ڈکشنری میں نہیں لکھا، آرٹیکل 63 اے کو 62 ون ایف کیساتھ کیسے جوڑیں گے؟کیاکسی فورم پررشوت لیناثابت کیاجاناضروری نہیں؟رشوت لیناثابت ہونے پر 62 ون ایف لگ سکتاہے، عدالت عظمیٰ میں صدارتی ریفرنس پر سمات کل دوپہر تک ملتوی کر دی گئی ۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی،دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سندھ ہاوس پرحملے کامعاملہ اٹھادیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیاہم اب ایف آئی آرپرسماعت شروع کردیں؟عدالت نے اے جی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ اب تک عدالتی حکم پر عمل کیوں نہیں کیا ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ ایف آئی آر میں متعلقہ دفعات کا اضافہ کر دیاہے ۔ایڈو وکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ شواہد کے مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات عائدنہیں ہوتیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جن دفعات کا اضافہ کیا گیاہے ان کے تحت گرفتاریاں کریں ، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ہم نے گرفتاریاں کی تھیں لیکن ملزمان نے ضمانتیں کروا لیں ، چیف جسٹس نے ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ و ضمانتیں تب ہوئیں جب ایف آئی آر میں قابل ضمانت دفعات تھیں۔

سپریم کورٹ نے سندھ ہاﺅس پر حملے میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اضافی دفعات کے مطابق کارروئای کرکے کل رپورٹ پیش کریں ۔سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اب کوئی شکایت ہے تو متعلقہ فورم پر جائیں ، سندھ حکومت سیشن کورٹ سے رجوع کرسکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سوال ہوا تھا جو آئین میں نہیں لکھاوہ عدالت کیسے پڑھے ،سپریم کورٹ کے 2018کے فیصلے کاحوالہ دیناچاہتاہوں، عدالت نے تمام امیدواروں سے کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی مانگا،قانون میں بیان حلفی نہیں تھاعدالتی حکم پرلیاگیا،بیان حلفی کے بغیرکاغذات نامزدگی عدالت نے نامکمل قراردیئے تھے،عدالتی حکم پرکاغذات نامزدگی سے نکالی گئی معلومات لی گئیں، عدالت نے کہاانتخابی عمل میں شفافیت کیلئے بیان حلفی لیے جائیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کولگتاہے آرٹیکل 63اے میں کسی قسم کی کمی ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63اے کواکیلانہیں پڑھاجاسکتا،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلے میں انتخابات کی ساکھ اورتقدس کی بات کی گئی،اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ پرکامیاب ہونیوالی جماعتیں ڈسپلن کی پابندہوتی ہیں،کوئی پارٹی کےساتھ نہیں چل سکتاتومستعفی ہوسکتاہے،پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دینے والاتاحیات نااہل ہوناچاہیے،

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کو 62 ون ایف کیساتھ کیسے جوڑیں گے؟کیاکسی فورم پررشوت لیناثابت کیاجاناضروری نہیں؟رشوت لیناثابت ہونے پر 62 ون ایف لگ سکتاہے،اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی قانونی طورپربددیانتی ہے،قانونی بددیانتی پرآرٹیکل 62 ون ایف کااطلاق ہوگا،جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ منحرف رکن اگرکسی کااعتمادتوڑرہاہے توخیانت کس کیساتھ ہوگی؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سب سے پہلے خیانت حلقے کے عوام کےساتھ ہو گی ، ووٹر اپناووٹ ڈال کرواپس نہیں لے سکتا۔

جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی سوالات کوکس طرح لیاجاتا ہے،اس کوبھی دیکھیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی قائدین کوعلم ہوناچاہیئے کہ زیرالتوامقدمات پربات نہ کریں،جسٹس جمال خان نے کہا کہ کیا وزیراعظم کوعدلیہ پراعتمادنہیں؟ کیاوزیراعظم کوغیرذمہ دارانہ بیانات سے نہیں روکاجاسکتا؟چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سوالات کے ذریعے کیس سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، عدالت تقاریراور بیانات سے متاثرنہیں ہوتی، سوشل میڈیاپربھی کارروائی پرگفتگواحتیاط سے کرنی چاہیئے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کو عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے ۔جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ وزیراعظم نے کمالیہ کی تقریرمیں کیاکہاکہ ججزکوساتھ ملایاجارہاہے؟کیا آپ نے وزیراعظم کی بات کانوٹس لیا؟

جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کواعلیٰ عدالتوں کے فورم پراعتماد نہیں توان کے نمائندوں کوکیسے ہوگا؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اصل نکتہ نااہلی کاہے،اس پرسب ہی آپ کوسنناچاہتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 63اے کی خلاف ورزی کاسسٹم پربراہ راست اثرپڑسکتا ہے، 10سے15اراکین منحرف ہوجائیں تویہ سسٹم کامذاق بنانے والی بات ہے، 15لوگ حکومت بدل کردوبارہ الیکشن لڑیں تومیوزیکل چیئرچلتی رہے گی۔

 صدارتی ریفرنس  پر سماعت میں اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقننہ نے امیدواروں سے بیان حلفی لینا ضروری قرار نہیں دیا، عدالت نے انتخابات شفاف بنانےکیلئے امیدواروں کوبیان حلفی دینا ضروری قرار دیا، جو کام مقننہ سے مسنگ ہو وہ عدالت کراسکتی ہے۔اس پر چیف جسٹس عمر  عطا بندیال نے کہا کہ کتابیں کھولنے سے پہلے اراکین کے کردار کی شقوں کو دیکھنا ہے جب کہ جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کو تاحیات نااہلی کی شق سے کیسے جوڑ سکتے ہیں، اراکین اعتماد توڑ کر کیا خیانت کررہے ہیں؟

 اٹارنی جنرل کا کہناتھا کہ پارٹی سے بے وفائی کومثبت رنگ نہیں دیاجاسکتا، پارلیمانی نظام کیلئے اہم ترین کیس ہے، دلائل مکمل کرنے کیلئے مزیدایک سے 2سماعتیں درکارہوں گی،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جمعرات اورجمعہ کوبنچ لاہورمیں ہوگا،دوسرے وکلاکووقت دینالازمی ہے، ایسی صورت میں وزیراعظم کواعتمادکاووٹ لیناہوگا، عوام اپنی رائےکااظہارصرف ووٹ سے کرسکتی ہے، رمضان شروع ہونیوالاہے،ایک بجے سماعت ممکن نہیں ہوگی، کل تک اپنے دلائل مکمل کرنےکی کوشش کریں، عدم اعتمادکامیاب ہوتومنحرف ارکان اوروزیراعظم دونوں گھرجائیں گے، حکومتی ارکان مستعفی ہوجائیں توبھی اکثریت ختم ہوجائے گی۔

جسٹس اعجاز نے سوال  کیا کہ اعتماد کے تعلق کی بنیاد کیا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ ووٹرزکا اعتماد اور جماعت کے منشور سے منتخب ہونا اس اعتماد کی بنیاد ہے، ایک دفعہ ووٹر ووٹ دے تو 5 سال کے لیے نمائندہ منتخب ہوتا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایک بار تیر کمان سے نکل گیا تو واپس نہیں آسکتا، تیر ووٹرز کی توقعات کے بجائے کہیں اور جالگے تو اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس یئے کہ ایسی صورت میں وزیراعظم کواعتمادکاووٹ لیناہوگا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوام اپنی رائے کااظہارصرف ووٹ سے کرسکتی ہے،جسٹس جمال خان نے کہا کہ منحرف رکن سے لوگ ناراض ہوں گے توووٹ نہیں دیں گے، اسلام میں طلاق جائزہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ مردکو 4 اورعورت کوایک شادی کی اجازت ہے، مناسب ہوگاطلاق اورشادی پرنہ جایاجائے، آئین نے جرم کرنیوالےارکان کو 5 سال کیلئے نااہل قراردیا، فیصلہ عوام پرہی چھوڑناہوتاتو5 سال کی نااہلی شامل نہ ہوتی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جمہوریت ایک ندی ہے جسے بےوفائیاں آلودہ کرتی ہیں،، بےوفائی اورمنحرف ہونےکامثبت مطلب کسی ڈکشنری میں نہیں لکھا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ چوری کےکام کی رسیدنہیں ہوتی،گاڑی چلاناجرم نہیں لیکن اوورسپیڈنگ پرچالان ہوتاہے،جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ ممکن ہےانحراف کرناغلط کیخلاف ہی ہو، آرٹیکل 63 ا ے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتے ۔ سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کل دوپہر ایک بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے ۔


Reader's opinions

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *



Current track

Title

Artist