وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے آرمی چیف سے رابطہ کر کے بیچ بچاؤ کی درخواست کی گئی ، ڈی جی آئی ایس پی آر

Written by on April 14, 2022

پاک فوج کے ترجمان  ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ  اسٹیبلشمنٹ  کی جانب سے  سابق وزیر اعظم کے سامنے آپشن رکھنے کی بات درست نہیں ،  وزیر اعظم  ہاؤس کی جانب سے آرمی چیف سے رابطہ کر کے بیچ بچاؤ کی درخواست کی گئی تھی ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے میڈیا  بریفنگ دی ، ایک صحافی نے سوال کیا کہ   عمران خان کہتے ہیں کہ  اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کچھ مطالبات رکھے گئے تھے   ا س پر کیا کہیں گے ، ڈی جی آئی ایس پی آر نے  جواب دیا کہ یہ آپشنز ا سٹیبلمشنٹ کی طرف سے نہیں رکھی گئی  تھیں بلکہ  وزیر اعظم ہاؤس  کی جانب سے آرمی چیف کو اپروچ کیا گیا کہ  بیچ بچاؤ کی بات کریں ،  یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادتیں  آپس میں  بات کرنے کو تیار نہیں تھیں  آرمی چیف ،  ڈی  جی آئی ایس آئی  پی ایم آفس گئے اور   وہاں یہ 3 باتیں ڈسکس ہوئیں کہ کیا ہو سکتا ہے ، ایک یہ تھی کہ عدم اعتماد کو کامیاب ہونے دیں ، دوسری  یہ کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے دیں، تیسری آپشن یہ تھی کہ  عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لیں  اور وزیر اعظم عام انتخابات کا اعلان  کر ادیں ۔    ملاقات میں تیسری آپشن  پر اتفاق کیا گیا ، آرمی چیف نے پھر اپوزیشن سے بات کی ، سیر حاصل بحث کے بعد ہم نے  کہا کہ ہم ایسا کوئی قدم نہیں کرینگے ، آپ اپنے طریقے سے چلیں ۔

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ  پچھلے کچھ عرصہ میں دہشتگردوں  نے بلوچستان  میں امن  وامان کی صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی ہے ، اس سال کے  پہلے3ماہ میں 128 دہشتگردوں کوہلاک  ، 270 کو گرفتار کیا گیا، 97  جوانوں  ، افسران اور یرغمالیوں  نے  جام  شہادت  نوش کیا ۔ دہشتگردی کے خلاف قومی  جنگ آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ عالمی امن کے قیام کے لئے کانگو میں  پاکستان آرمی کے  6 جوانوں ، افسران نے  29 مارچ کو جام شہادت نوش کیا۔ 168 افسران وجوان مختلف یواین مشنز  میں عالمی امن کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں ،  ان قربانیوں کا اعتراف اقوام متحدہ میں  اعلیٰ ترین  سطح پر کیا گیا۔عالمی چیف نے سیکیورٹی چیلنجز کے باوجود او آئی سی  اجلاس ، 23 مار چ کی پریڈ اور کرکٹ سیریز  کو پر امن طریقے سے منعقد کرانے پر خراج تحسین پیش کیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا  افواج پاکستان اور لیڈر شپ کے خلاف ایک  منظم مہم چلائی جا رہی ہے ، مختلف ریٹائرڈ سینئر آرمی آفیسر کے فیک آئڈیو میسجز بنائے جا رہے ہیں ، یہ غیر قانونی اور ملکی مفاد کے خلاف ہے ، جو کام دشمن 7 دہائیوں میں نہیں کر سکا وہ ہم  اب بھی نہیں   ہونے دیں گے ۔عوام اور سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں، ہم دو ر رہنا چاہتے تھے ، ہمیں دور ہی رکھیں ، نہ یہ مہم پہلے کامیاب ہوئی ، نہ اب ہوگی ،  فیصلے قانون پر چھوڑ دیں ،  ہم سب انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا کردارا دا کرکے ادارے اور ملک کو مضبوط بنائیں ۔

ایک صحافی نے سوال پوچھا کہ عسکری قیادت نے بیرونی مداخلت کے معاملے کو تسلیم کیا ؟، عسکری قیادت کا کیا موقف ہے ؟۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے جواب دیا کہ  عسکری قیادت کا وہی موقف ہے  جو قومی سلامتی کی   کمیٹی میں دیا ،  نیشنل سکیورٹی کی کمیٹی  میں   چیئرمین   جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی ، تمام سروسز  چیف ، ڈی جی آئی ایس آئی شامل تھے  ،   وہ موقف اس میٹنگ میں بھرپور د یا گیا جس کے بعد اعلامیہ بھی جاری ہوا  ، میں    اس میٹنگ کی بات نہیں کر سکتا یہ کانفیڈنشل ہے ،   جو اعلامیہ جاری ہوا اس میں واضح طور پر ہے  ۔   اگر کسی نے پاکستان کے خلاف کوئی سازش کرنے کی کوشش کی تو کامیاب نہیں ہونے دینگے ، کسی نےمیلی آنکھ سے دیکھا تو آنکھ  نکال دیں گے ۔ ایک روز قبل وزیر اعظم نے بھی کہا کہ پارلیمنٹری سیکیورٹی میٹنگ بلائیں گے ، اس میں بھی مسلح افواج کے سربراہان  وہی ان پٹ دیں گے ۔

 ایک صحافی نے سوال پوچھا کہ گزشتہ دنوں  پشاور جلسے  میں   خطاب  کے دوران کہا گیا کہ ہمارے نیو کلیئر اثاثے  چوروں کے ہاتھوں میں آگئے ہیں کیا کہیں گے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ  اس چیز سے متعلق بات کرتے ہوئے محتاط  رہنا چاہئے ، ہمارے نیو کلیئر اثاثے کسی فرد کے  پاس نہیں ، جب سے یہ پروگرام شروع ہوا  تمام جماعتوں نے حب الوطنی کے ساتھ  اس پروگرام کو آگے بڑھایا حتیٰ کہ یہ آج والی پوزیشن میں پہنچا ہے ،  اسے سیاسی گفتگو میں نہیں لانا چاہئے ۔ 

نیوٹرل کی چہ میگوئیوں سے متعلق سوال پر  میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ  ہمارے ادارے کا آئینی اور قانونی رول ہے ، ہماری کسی قسم کی سیاسی وابستگی یا عمل دخل نہیں  ،   عوام کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ،   میں نے پہلے بھی کہا  کہ  آرمی چیف نے بھی  پارلیمانی کمیٹی میں  سیاسی قائدین کو کہا تھا کہ ہم خود کو سیاست سے دور رکھنا  چاہتے ہیں  ،  میں کبھی کسی کے پاس نہیں گیا  تو مجھ سے کیوں آپ بار بار ملنے آتے ہیں۔گلگت بلتستان میں  میٹنگ ہوئی تو بھی  آرمی چیف  نے کہا کہ ہم سیاست سے دور ہیں، آپ ہمیں مت گھسیٹیں ، ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے سیاست سے ۔  

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آرنے کہا کہ  سابق وزیر اعظم جب دورہ روس پر گئے تو فوج آن بورڈ تھی   ، اس وقت علم نہیں تھا کہ وزیر اعظم کی موجودگی میں  یوکرین  سےجنگ کا آغاز کیا جائے گا ۔ 

 امریکی سفیر کے مراسلے سے سے متعلق ایس او پیز کے سوال پر ترجمان پاک فوج نے کہا کہ   ہمارے سفیر ایمبیسی کو سیفر بھیجتے ہیں ،   یہ ٹاپ سیکرٹ ہوتے ہیں  ان میں کچھ ہمارے ادارے کو بھی  موصول ہوتے ہیں   جن کا تعلق نیشنل سیکیورٹی سے ہو وہ آئی ایس آئی اور ہمارے پاس موصول ہوتے ہیں  ، جب کسی ادارے کو مراسلہ موصول ہوتا ہے تو وہ اپنا کام شروع کر دیتا ہے ، ہمارے پاس بھی جب سائفر آیا ہم نے اپنا کام شروع کر دیا ، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں جو ان پٹ دی گئی وہ اسی بنیاد پر دی گئی تھی ، اس کا ذمہ دار  فارن آفس ہی ہوتاہے ۔

 جلسوں میں آرمی چیف پر ہونے والی تنقید سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو زبان استعمال  کی گئی  اس پر درخواست کرتا ہوں کہ تمام لوگوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے ، یہ کسی کے فائدے میں نہیں    ، یہ بد قسمتی ہے کہ ایسی زبان استعمال ہوتی ہے  خصوصاً ایسے ادارے یا قیادت کے بارے میں جو ہر وقت ملکی سیکیورٹی کیلئے  کام کررہے ہیں ، ہمارے سیکیورٹی چیلنجز بہت بڑے ہیں ، پاکستان کے ارد گرد  ہونے والے واقعات سے واقف ہیں  ، ہمارے چیلنجز اس قدر زیادہ ہیں کہ مسلح افواج   ان سے  ہی نمٹ لے تو بڑی کامیابی ہے ، ہم کسی اور مسئلے میں نہیں الجھتے ، ہمیں بغیر کسی ثبوت کسی چیز  کا مورد الزام ٹھہرانا  ہر گز اچھا نہیں ۔

رات کے وقت عدالتیں کھلنے سے متعلق سوال کے جواب پر ترجمان پاک فوج نے کہا کہ کیا  عدالتیں  فوج کے انڈ ر ہیں ؟  ، ہماری عدالتیں آزاد ہیں انہوں  نے کوئی ایکشن لیا تو ان کا اپنا معاملہ ہے ، اس کا مارشل لاءسے تعلق نہیں ، پاکستان کی بقاء جمہوریت میں ہے ، اسے مضبوط کرنا سب کا فرض ہے ۔ جمہوریت میں  ادارے ہیں ،  اس کی طاقت  عدالتیں  ، پارلیمنٹ ہے اور مسلح افواج ہے ۔

پی ڈی ایم کی سٹیج سے فوج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف ہرزہ سرائی  سے متعلق سوال پر  ان کا کہنا تھا کہ  اس  پر اقدامات کس نے لینے تھے ، کیا فوج نے لینے تھے ؟ ۔  اس کی ذمہ دار حکومت وقت ہے   حکو ت میں  ایسے ادارے موجود ہیں جنہوں نے ایکشن لینا تھا ، وہ لیتے ، جب فوج کسی کو پکڑتی ہے تو الزام آتا ہے کہ حدود سے باہر نکل کر کچھ کیا ۔ اب   اس چیز کو ختم ہونا چاہئے ، اس کا کوئی جواز نہیں بنتا ، جو کچھ بھی کہا جاتا ہے  اس کے ساتھ کوئی ثبوت نہیں ہوتا ،  آج بھی جو کچھ ہے کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے  تو لائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ 


Reader's opinions

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *



Current track

Title

Artist