وزیرخزانہ نے مہنگائی بڑھنے کا اعتراف کرتے ہوئے شرمندگی کا اظہار بھی کردیا

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ملک میں مہنگائی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار میں رہنے کا موقع ملا تو ملک کو مشکلات سے نکالنے کی کوشش کریں گے، ہ مہنگائی دنیا بھر میں ہے،  تاہم ملک میں مہنگائی میں اضافے پر بہت شرمندہ ہوں۔

“ایکسپریس نیوز “کے مطابق اظہار آئی بی اے کراچی کے تحت پاکستان کی موجودہ معیشت کی صورتحال پر ہونے والے مذاکرے میں اظہار خیال کرتے ہوئےوفاقی وزیر نے کہا کہ معاشرے میں نوجوانوں کا تناسب زیادہ ہے، معیشت میں بہتری کے ساتھ آبادی بھی بڑھتی ہے،جب اقتدار میں آئے تو انتہائی خراب صورتحال تھی۔

انہوں نے کہا کہ سابقہ دور حکومت میں آئی ایم ایف اور عالمی بنک سے قرضوں کے حصول میں تاخیر کی گئی، ان اداروں نے کوویڈ 19 میں پاکستان پر اپنے قرضے معاف بھی کیے۔مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ملک آئی ایم ایف سے معاہدہ ختم کرنے کے بعد ڈیفالٹر ہونے جارہا تھا،عالمی بنک قرضہ دینے کے لیے رضامند نہ تھا، ہم نے برسر اقتدار آتے ہی ان سے رابطے کیے، قرضے ناگزیر تھے، تاجروں کو قرضہ دے کر ہی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، درآمدات میں اضافہ سے معیشت پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں عوام ٹیکس ادا نہیں کرتی، 52 فی صد ٹیکس بندرگاہوں سے ملا، درآمد شدہ اشیاء پر ٹیکس لگانے سے مہنگائی بڑھتی ہے، میرے خاندان سمیت کوئی برآمدات پر توجہ نہیں دیتا، ہم پر تعیش زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔نیب نے سیاسی بنیادوں پر جیل میں ڈالا، ہم نے اسٹیٹ بنک کی پالیسی پر نظر ثانی کی، غیر ملکی زر مبادلہ کو بڑھانے کے لیے اقدامات کیے، برآمدات نہ بڑھا سکے تو درآمدات کی حوصلہ شکنی کی۔

لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت قرض لینے پر مجبور ہے، عوامی سرمایہ کم ہونے کی بنا پر غیر ملکی قرضہ مجبوری ہے، غیر ملکی قومیں بچت کرکے سرمایہ کاری کرتی ہیں، بجلی کی قیمت گھٹی تو غیر ضروری استعمال شروع ہوگیا، شادی ہالز کی تعداد بڑھ گئی، پاکستانی بونڈ کی قیمت پر برے اثرات آئے، ڈالر کا ریٹ بڑھنا لازمی ہوگیا، پیٹرولیم کی قیمتیں پی ٹی آئی کی غلطی سے بڑھیں، قیمت گرانے سے ڈیمانڈ بڑھ گئی، حکومت کو سبسڈی کی مد میں اضافی خرچہ اٹھانا پڑا، ہمیں ہر فورم پر جاکر قرض مانگنا پڑتا ہے۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ بہت شرم آتی ہے،سبسڈی کی مد میں بڑی رقم چلی جاتی ہے، دنیا بھر کی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں کم ہوئی،پاکستانی روپیہ کم ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں، مارک اپ5فی صد سے بڑھ گیا۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب جیسی قدرتی آفات کی تباہ کاریوں سے بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، متاثرین کونقد امداد دی گئی، 70 ارب روپے ترقیاتی فنڈز میں سے بطور امداد دیے جائیں گے، زرعی پیداوار سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئی ہے، کپاس اہم پیداوار ہے لیکن اس کی فصل خراب ہوئی،لائف سٹاک تباہ ہو کر رہ گئی، برآمدات میں اضافہ ضروری ہے، ٹیکسز کا حصول لازمی ہے، زرمبادلہ کو بڑھانا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ گیس اور بجلی کے سرکلر ڈیبیٹ کی مینجمنٹ کرنا ہوگی،حکومت کو نجکاری کے ساتھ خود کاروبار کرنے سے اجتناب برتنا ہوگا، زرعی میدان میں راست اقدامات کو یقینی بنانا ہوگا، معیشت میں گروتھ لانا مشکل نہیں ہے، 2007_08 اس سال 11 عشاریہ سے کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ تھا، غریب آدمی کو امیر کریں گے تو اس کی زندگی بہتر بنے گی، امیر آدمی کو امیر بنائیں گے تو امپورٹ اشیاء بڑھے گی۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ آدھے پاکستانی بچے سکول نہیں جاتے ،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17اعشاریہ 5ارب ڈالر ہے،مالیاتی خسارہ 5ہزار ارب روپے کا ہے، عمران خان کے دور میں 20 ہزار ارب کا قرض بڑھا، ہم نے ٹارگٹڈ سبسڈیز دی، 3 ماہ کیلئے لگژری آئٹمز پر پابندی لگائی۔

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *